۷ آذر ۱۴۰۳ |۲۵ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 27, 2024
علم ايران

حوزہ/ مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات اور حالیہ واقعات میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایران کی طاقتور عسکری اور دفاعی صلاحیتوں کے باوجود حملے میں تاخیر کے متعدد عوامل ہیں، جو نہ صرف خطے کے سیاسی اور عسکری توازن کو واضح کرتے ہیں، بلکہ ایران کی حکمت عملی اور دور اندیشی کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات اور حالیہ واقعات میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایران کی طاقتور عسکری اور دفاعی صلاحیتوں کے باوجود حملے میں تاخیر کے متعدد عوامل ہیں، جو نہ صرف خطے کے سیاسی اور عسکری توازن کو واضح کرتے ہیں، بلکہ ایران کی حکمت عملی اور دور اندیشی کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

ایران اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ایک بار اسرائیل پر حملہ کرنے کے بعد ممکنہ ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے، اہم مقامات پر دفاعی نظام کو نصب کرنے اور بعض ہتھیاروں کی مرمت اور تبدیلی کے عمل میں مصروف ہے۔ یہ تاخیر درحقیقت ایران کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، جس میں ہر پہلو کو مدّنظر رکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر حالیہ کامیاب تجرباتی میزائل لانچز اس بات کا اشارہ ہیں کہ ایران ایک ایسے بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے جو اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچائے۔

ایران کی حکمت عملی کا ایک اہم جزو جنگ کے ابتدائی مراحل میں دشمن پر غافلگیرانہ حملہ ہے۔ غافلگیری کا اصول جنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ اسرائیل کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں جو ایران کے میزائل حملے سے قبل ہی ہدف کی جگہ بدل سکتے ہیں۔ ان وسائل میں امریکی مصنوعی سیاروں کا نیٹ ورک شامل ہے جو فوری طور پر معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ایران کو ان چیلنجز کا علم ہے اور وہ ان پر قابو پانے کے لیے اپنے منصوبے کو مزید بہتر بنا رہا ہے۔

مزید برآں، ایران اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور ممکنہ جنگ کے مالی اثرات کا سامنا کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہا ہے۔ عالمی پابندیوں کے باوجود، ایران نے معاشی اصلاحات کا عمل جاری رکھا ہوا ہے تاکہ کسی بھی بڑے بحران کے دوران داخلی استحکام برقرار رکھا جا سکے۔

ایران کی تیاریوں میں ایک اور اہم پہلو "گیم چینجر" کی تلاش ہے۔ حالیہ میزائل تجربات، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور نئے حملہ آور نظام کے تجربات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایران کسی خاص موقع کے لیے میدان تیار کر رہا ہے۔ یہ "گیم چینجر" نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے حامیوں کے لیے بھی صورتحال کو یکسر بدل سکتا ہے۔ ایران نے حالیہ دنوں میں نئے سیٹلائٹس لانچ کیے ہیں، جو اسرائیل اور اس کے اہم فوجی اور شہری مراکز کی رصد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان سیٹلائٹس کا مقصد اہداف کی شناخت اور حملے کی کامیابی کے امکانات کو مزید بڑھانا ہے۔

ایران اس حقیقت سے بھی غافل نہیں ہے کہ اسرائیل پر کسی بڑے حملے کے بعد امریکہ براہ راست جنگ میں مداخلت کر سکتا ہے۔ اس لیے ایران نے امریکی اہداف کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں ان مقامات کو شامل کیا ہے جو جنگ کی صورت میں فوری جواب کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ، ایران اپنے حساس اور اہم فوجی مقامات کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر جغرافیائی تبدیلیاں بھی کر رہا ہے، تاکہ دشمن کے پہلے حملے میں نقصان کم سے کم ہو۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ایران ایک بڑے حملے کے لیے وقت اور بہتر منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ یہ صرف جنگی ہتھیاروں اور وسائل کی بات نہیں، بلکہ اس میں مسلسل نئے انٹیلیجنس ڈیٹا کا حصول، ممکنہ اہداف کی مکمل فہرست اور خطے کے حالات کو مکمل طور پر سمجھنا بھی شامل ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، ایران اپنے منصوبے کو مزید بہتر اور مکمل کر رہا ہے تاکہ ایک بار حملہ شروع ہونے کے بعد دشمن کو کسی بھی قسم کا موقع نہ مل سکے۔

ان تمام عوامل کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ایران کی یہ تاخیر کسی کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ گہری حکمت عملی اور تدبّر کا مظہر ہے۔ ایران کسی بھی قسم کی جلد بازی سے اجتناب کر رہا ہے اور ہر قدم کو انتہائی احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ اٹھا رہا ہے۔ یہ حملہ نہ صرف اسرائیل کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہوگا بلکہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات ڈالے گا۔ ایران کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی عسکری، سیاسی اور اقتصادی حکمت عملیوں کو مجموعی طور پر دیکھیں، جو اسے ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر طاقت بناتی ہیں۔

ایران کی جنگی حکمت عملی میں تاخیر کے پیچھے ایک اور اہم عنصر خطے میں اس کے اتحادیوں کے ساتھ مربوط حکمت عملی اور تعاون کو مضبوط کرنا ہے۔ حزب اللہ، حماس، اور دیگر مقاومتی گروہوں کے ساتھ تعاون کو مزید مستحکم کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں ایک مشترکہ اور بھرپور دفاعی و جوابی حکمت عملی اپنائی جا سکے۔ ایران ان تنظیموں کے لیے مالی، عسکری اور تکنیکی معاونت فراہم کر رہا ہے تاکہ دشمن کو کئی محاذوں پر مصروف رکھا جا سکے۔

اس کے علاوہ، ایران کی تیاری میں نفسیاتی جنگ کا پہلو بھی شامل ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مسلسل بیانات، میزائل تجربات اور جنگی مشقوں کی خبریں نہ صرف دشمن کی صفوں میں اضطراب پیدا کرتی ہیں بلکہ خطے میں ایران کے حمایتیوں کو بھی حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ اس نفسیاتی دباؤ کا مقصد دشمن کی صلاحیتوں کو متزلزل کرنا اور اس کے دفاعی نظام کی خامیوں کو نمایاں کرنا ہے۔

ایران کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی ہے کہ وہ دشمن کو اپنے حملے کی نوعیت اور وقت کے بارے میں غیر یقینی رکھے۔ یہ غیر یقینی صورتحال اسرائیل کو مسلسل تیار رہنے پر مجبور کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کے وسائل کا زیاں ہوتا ہے اور داخلی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

مزید برآں، ایران یہ بھی جانتا ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی منظرنامے میں اسے نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی محاذ پر بھی کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)، اور دیگر عالمی فورمز پر اسرائیل کے خلاف مظالم کو اجاگر کرنا، بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا اور اسرائیل کو عالمی تنقید کے نشانے پر لانا ایران کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ایران کی یہ منصوبہ بندی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک طویل المدتی جنگی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جو نہ صرف اسرائیل کو کمزور کرے گی بلکہ خطے میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گی۔ دشمن کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا، اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنا اور عالمی سیاسی حمایت حاصل کرنا ایران کی کامیاب حکمت عملی کی بنیاد ہیں، جو آنے والے دنوں میں خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکتی ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .